حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان بھر کی طرح قم میں بھی متنازعہ شہریت بل کے خلاف حوزہ علمیہ قم میں مقیم ہندوستانی علماء اور اسکالرز کی جانب سے "تحفظ آئین ہندوستان " کے عنوان سے احتجاجی جلسہ منعقد ہوا۔
اس احتجاجی جلسے کے آخر میں شہریت بل کے خلاف میمورنڈم پیش کیا گیا جس کو اجتماع میں شریک علماء نے اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ اپنی منظوری کا اعلان کیا۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہم ہندوستان کے مختلف علاقوں اور مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلاب آج اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ وطن عزیز سے محبت کرتے ہیں ،اسکے آئین سے ہمیں پیار ہے اسکی مٹی میں ہمارے بزرگوں کی یادیں وابستہ ہیں ،ہم اس سرزمین پر پھلے پھولے اور اسی کی خاک میں سو جائیں گے ہم رہیں نہ رہیں یہ ملک رہے گا اور ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب سے پہچانا جائے گا ،افسوس کے کچھ خاص نظریہ کے حامل افراد مسلسل ملک کی سالمیت کے خلاف سازشیں رچ رہے ہیں اور اس ملک کو ٹکڑے ٹکرے کر دینے کے در پے ہیں جسکی بقا و سالمیت کے لئے ہمارے بزرگ پھانسی کے پھندوں میں جھول گئے لیکن انہوں نے غیروں کی غلامی کو قبول نہیں کیا افسوس آج حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ایک غلامانہ سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ملک ایک دوسرے طرز کی غلامانہ سوچ کو اختیار کرتا جا رہا ہے اورواضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ جب اسرائیل اپنے تحفظ کے لئے جو کچھ ضروری ہے انجام دے سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کیا یہ غلامانہ سوچ نہیں ہے ان حالات میں ہم تمام محبان وطن خاص کر ملک کے تمام مستضعفین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان تمام افراد کی شدید مذمت کرتے ہیں جو ملک کو ہوس اقتدار کی آگ میں جلا کر تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔
علماء کی جانب سے منظور شدہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہم طلاب ہندوستانی وزیر داخلہ کی جانب سے پیش کئے گئے شہریت کے ترمیمی بل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۱۴ اور ۱۵ کے خلاف سمجھتے ہوئے اس قانون کی سخت مذمت کرتے ہیں جو ہمارےآئین کی روح کی پامالی کا سبب ہے ۔
اور شہریت کا حالیہ ترمیمی بل نہ صرف واضح طور پر بنیادی آئین کی اس شق کے خلاف ہے جس میں صراحت کے ساتھ کہاگیا ہے کہ ملک میں کسی بھی شہری کے ساتھ رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی طرح کی تفریق نہیں کی جائے گی اور ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک ہو گا جبکہ اس بل کی بنیاد ہی مذہب کے اوپر ہے لہذا ہم اس بل کی مخالفت اپنا آئینی اور انسانی حق جانتے ہوئے صاحبان اقتدارسے اسے منسوخ کرنے کی پرزور مانگ کرتے ہیں ۔ اور ہندوستان کے آئین کی دفعہ 13میں یہ بات واضح طور پر موجود ہے کہ کہ اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے ٹکراتا ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی یعنی اگرآئین میں کسی طرح کی ترمیم ہوتی ہے یا قانون سازی کی جاتی ہے اور وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہوتا ہے تو اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا جبکہ شہریت ترمیمی بل شہریوں کے بنیادی حقوق پر بھی کاری ضرب لگاتا ہے اس لحاظ سے یہ قابل قبول نہیں ہے ۔
قم میں مقیم ہندوستانی علماء نے مطالبہ کیا کہ ہم ہندوستان کے درجہ اول کے شہری صدر جمہویہ مملکت سے درخواست کرتے ہیں کہ جس بل پر انہوں نے دستخط کئے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے تاریخ میں محفوظ ہو جائے گا اسکے بنیادی آئین کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ مہاتما گاندھی اور امبیڈکر صاحب کے ترسیم کردہ ملکی خطوط کے برخلاف ہونے کے باوجود ہندوستان جیسی عظیم جمہوریت کے صدر کی جانب سے اسے منظوری کا دیا جانا تاریخ کا حصہ بن جائے گا لہذا وہ خود ذاتی طو رپر ملک میں اس بل کے بعد پائی جانے والی بے چینی کو دیکھتے ہوئے اس پر نظر ثانی کریں اور اس ملک کو پھر انہیں گاندھی جی کے اصولوں کے دھارے پر گامزن کر دیں جن پر چل کر دنیا میں اس ملک کو ایک منفرد مقام حاصل ہوا ہے ۔ اللہ اکبر
اس قرارداد میں اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کی ہے کہ ہندوستانی عدلیہ سے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ بنیادی دستور العمل کے خلاف ہونے کی بنیاد پر اس بل پر فوری طور پر روک لگائے تاکہ ہندوستان کی عدلیہ کی مستقل ساکھ پر کوئی حرف نہ آئے ۔ اور ہندوستان کی عدلیہ سے ہماری درخواست ہے شہریت بل کی مخالفت میں ہر کھلنے والے زبان کو تحفظ فراہم کیا جائے اسلئے کہ جو بھی اسکے خلاف بول رہا ہے وہ اسکی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے نہیں بول رہا ہے بلکہ اس کے آئین ہند کے خلاف ہونے کی بنیاد پر بول ہا ہے اور یہ وہ آزادی ہے جسے بنیادی دستور میں تسلیم کیا ہے اور ہندوستانی آئین کی دفعہ ۱۹ کے تحت جہاں پر آزادی کے چھ اقسام کو ذکر کیا گیا ہے وہاں واضح طو پر اظہار رائے کی آزادی اور بغیر اسلحے کے اجتماع کی آزادی کی قانونی حیثیت کو مانا گیا ہے لیکن افسوس کا مقام ہے لاقانونیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ اب ان لوگوں پر حملے کئے جا رہے ہیں جو اپنی زبان کھول رہے ہیں اور ان لوگوں کو احتجاج کی اجازت نہیں دی جا رہی ہےجو آئین ہند کے تحفظ کی خاطر اپنی آواز لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں ، ایسے میں عدلیہ سے گزارش ہے وہ ہمیشہ کی طرح قانون کی بالا دستی کی خاطر اظہار رائے کہ ساتھ بغیر اسلحے کے اجتماع کے تحفظ کو یقینی بنائے ۔
اس احتجاجی قرارداد میں آیا ہے کہ کل انگریزوں نے اس ملک کے اصلی باشندوں کے ہاتھ اوپر کرا کے انکی پریڈ کرائی تھی اور آج آزاد ملک کی آزاد پولیس نے وہی کام اپنے ہی مستبقل کے سرمایہ یعنی طلباء کے ساتھ کیا اور ان کے ہاتھ مجرموں کی طرح اوپر کروا دئے بالکل ویسے ہی جیسے کل انگریزوں نے آزاد ہندوستانیوں کے کرائے تھے بس فرق اتنا ہے کہ کل انگریز گھروں میں بلا اجازت گھس جاتے تھے آج کے نام نہاد ہندوستانی قانون کے رکھوالے تعلیمی اداروں میں گھس رہے ہیں،دہلی کی جامعہ ملیہ کا واقعہ ایک بار پھر یہ بتا رہا ہے کہ ہندوستان کس سمت جا رہا ہے ہم طلاب ہندوستان دہلی کے جامعہ ملیہ میں ہونے والی پولیس کی بربریت کا شکار ہونے والے طلبا ء کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے یونیورسٹی کیمپس میں بلا اجازت پولیس کے داخلے کی شدید طور پر مذمت کرتے ہیں اور ہندوستانی عدلیہ سے درخواست کرتے ہیں کہ جلد از جلد بغیر انتطامیہ کی اجازت لئے اندر داخل ہونے والے پولیس اہلکاروں کی تفتیش کی جائے اور قانون کوتوڑنے کے جرم میں انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے ۔
احتجاجی جلسے میں منظور شدہ قرارداد میں جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں طلباء کے خلاف کاروائی کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ ملیہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلباء ہندوستان کا مستقبل ہیں اور افسوس کا مقام ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے اپنے ہی مستقبل کے سرمایہ کو تاراج کرنے کے لئے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتے ہیں ، بلا اجازت یونیورسٹی میں در آنا، طلبا کا پیچھا کرتے ہوئے انہیں ہراساں کرنا ان پر لاٹھی ڈنڈے اور گولیاںبرسانا ، آنسو گیس کے گولے چھوڑنا یہ یہ تاناشاہی وطیرہ ہے یا جمہوری ملک کی میراث؟ ہم اس واقعہ پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہیں اور اس واقعہ کی بے طرفانہ چانج کا مطالبہ کرتے ہوئے مجرموں کو کڑی سے کڑی سزا دئے جانے کی مانگ کرتے ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ہم مکتب اہلبیت اطہار علیھم السلام سے وابستہ ہونے کے ناطے تمام دوست داران اہلبیت اطہار علیھم السلام سے بالخصوص اور تمام ہی حریت پسندوں سے بالعموم درخواست کرتے ہیں کہ اس بل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے ہر ممکنہ تعاون کیا جائے کہ حق کی حمایت مظلوم کا ساتھ مکتب اہلبیت اطہار علیھم السلام کی تعلیمات کا بنیادی رکن ہے ،اور اسی بنیاد پر ہم ہندوستان میں اپنی قیادت سے بھی پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کو دیکھیں اور اس کے آئینے میں حال کی تصویر کو دیکھیں ہمارا کل وہ ہے جہاں ہم نے کربلا رقم کی ہے کل وہ ہے جہاں سر کٹا کے بھی ہم سر بلند ہوئے ہیں کتنے افسوس کا مقام ہے کہ کربلا جیسا درخشان کل ہونے کے باوجود ہم آج خاموش تماشائی بنے رہیں ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا ہے لہذا ہم اپنے تمام بزرگان ملت ، عمائدین قوم اور دانشوران ملت سے پر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ ہرگز حسینیت کی ڈگر سے پیچھے نہ ہٹیں کہ حسینیت کا امتیاز ہی یہی ہے کہ تعداد میں کم ہوتے ہوئے بھی حسینیوں نے ظلم کو برداشت نہیں کیا ہے ،لہذا اٹھیں ایک بار پھر اٹھیں عزم زینیبی لیکر اٹھیں فکر حسینی لے کر اٹھیں اور دنیا کو بتا دیں کہ ہمارا تعلق اس مکتب سے ہے جہاں سروں کو کاٹا تو جا سکتا ہے جھکایا نہیں جا سکتا، جہاں سر کٹنے کے بعد بھی نوک نیزہ پر بلند ہو کر ایک ہی نعرہ لگاتا ہے ھیات منا الذلہ ۔۔۔